ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / ملکی خبریں / رتن سنگھ اور عنبربہرائچی کے تخلیقی و تنقیدی کارنامے لائق تحسین،شعبہ اردوجامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام تعزیتی جلسے میں مقررین کا اظہار خیال

رتن سنگھ اور عنبربہرائچی کے تخلیقی و تنقیدی کارنامے لائق تحسین،شعبہ اردوجامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام تعزیتی جلسے میں مقررین کا اظہار خیال

Sun, 09 May 2021 16:40:01  SO Admin   S.O. News Service

نئی دہلی، 9/مئی (ایس او نیوز/پریس ریلیز) رتن سنگھ نے 90 برس سے زائد عمر پائی۔ تقسیم ہند کے حوالے سے رتن سنگھ کا فکشن اردو کے افسانوی ادب کا بیش بہا سرمایہ ہے۔ وہ پنجابی کے بھی ادیب تھے۔ کئی افسانوی مجموعوں کے علاوہ ان کے خود نوشت سوانحی ناول ’دربدری‘ کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔

ان خیالات کا اظہار صدرِ شعبہ پروفیسر شہزاد انجم نے ممتاز فکشن نگار رتن سنگھ اور معروف شاعر و نقاد عنبر بہرائچی کی رحلت پرشعبہ اردوجامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیرِ اہتمام آن لائن تعزیتی جلسے میں کیا۔ انھوں نے عنبر بہرائچی کے حوالے سے کہا کہ وہ فی زمانہ سنسکرت کے ممتاز عالم تھے۔ بہترین نقاد اور عمدہ شاعر بھی تھے۔ انھوں نے سنسکرت شعریات کے حوالے سے نہایت اہم کتابیں تصنیف کیں۔ ان کی نعتوں کا مجموعہ ’روپ انوپ‘ بے حد مقبول ہوا۔

پروفیسر شہپر رسول نے تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ رتن سنگھ اردو کے بزرگ فکشن نگار تھے۔ انھوں نے مشہور رسالہ ’ذہن جدید‘ میں عجیب و غریب وفاتیہ لکھا تھا جو بہت پسند کیا گیا تھا۔ وہ اکثر اس تکلیف کا اظہار کرتے تھے کہ نئے ذہن کو تخلیق سے سروکار کم ہوگیا ہے۔ شہپر رسول نے عنبر بہرائچی کے سلسلے میں کہا کہ ان سے میرے ذاتی تعلقات تھے۔ میں نے علی گڑھ میں ان کے کئی وقیع لیکچر سنے ہیں۔ اب اردو میں شاید ہی سنسکرت کا کوئی ایسا عالم ہو۔

پروفیسر احمد محفوظ نے رتن سنگھ کی رحلت پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ فکشن کی دنیا میں ان کا بڑا نام اور اعتبار تھا۔ وہ پرانی نسل کے نمائندے تھے۔ احمد محفوظ نے عنبر بہرائچی کے بارے میں کہا کہ وہ بہت محبت سے ملتے تھے اور میرے خیال میں عنبر بہرائچی وہ تنہا شخص ہیں جنھوں نے اردو میں سنسکرت شعریات پر اس قدر اعلیٰ درجے کا کام کیا ہے۔ پروفیسر کوثر مظہری نے رتن سنگھ کو بزرگ فکشن نگاروں کی آخری کڑی قرار دیتے ہوئے ان کے سانحہئ ارتحال پر رنج و غم کا اظہار کیا۔

پروفیسر کوثر مظہری نے عنبر بہرائچی کے حوالے سے اپنی یادوں کا اشتراک کرتے ہوئے کہا کہ وہ نہایت نفیس، مشفق اور حلیم الطبع تھے۔ میں انھیں نظم کا بڑا شاعر مانتا ہوں۔ ان کے شعری مجموعے ’سوکھی ٹہنی پر ہریل‘ کو ساہتیہ اکیڈمی نے ایوارڈ بھی دیا تھا۔ اس مجموعے سے دیہی زندگی اور ہندوستانیت سے ان کی وابستگی کا اندازہ ہوتا ہے۔

پروفیسر خالد جاوید نے رتن سنگھ کو افسانہ نگاری کے علاوہ بچوں کے لیے لکھی گئی عمدہ کہانیوں کے حوالے سے بھی یاد کیا۔ انھوں نے عنبر بہرائچی کی یادیں تازہ کرے ہوئے کہا وہ ایک بڑے افسر بھی تھے۔ جب بریلی میں پوسٹڈ تھے تو میرے گھر بھی تشریف لائے تھے۔ اردو میں سنسکرت شعریات کے حوالے سے اب کوئی دوسرا نام نظر نہیں آتا۔ 

اس غم و اندوہ کے موقع پر ڈاکٹر سرورالہدیٰ، ڈاکٹر شاہ عالم، ڈاکٹر خالد مبشر، ڈاکٹر مشیر احمد، ڈاکٹر سید تنویر حسین، ڈاکٹر محمد مقیم، ڈاکٹر عادل حیات، ڈاکٹر جاوید حسن، ڈاکٹر ثاقب عمران، ڈاکٹر ساجد ذکی فہمی اور ڈاکٹر روبینہ شاہین زبیری نے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے مرحومین کو خراج عقیدت پیش کیا۔ تعزیتی نشست کا اختتام دعائیہ پر ہوا۔ 


Share: